کبھی سوچا ہے کہ دریا پانی کا ذریعہ ہونے کے علاوہ ہماری زندگی میں کتنی اہمیت رکھتے ہیں؟
نہیں ناں......
ہماری لوک داستانوں میں ان کا اہم کردار ہے. جیسے سوہنی مہیوال کی کہانی میں دریائے چناب کو مرکزی اہمیت حاصل ہے. انہی کے کناروں پر ہڑپہ و موئنجودڑو جیسی عظیم ترین تہزیبیں آباد رہی ہیں. انہیں دریاؤں کو کئی کافیوں، غزلوں، گانوں، نغموں اور شعروں کا حصہ بنایا گیا ہے. انہی پر نثر میں بھی کئی کتابیں لکھی گئیں ہیں. انہی دریاؤں نے بڑے بڑے فاتحین کی پیش قدمیاں روکی ہیں. انہی دریاؤں نے دو شہروں کو آپس میں ملایا ہے. انہی دریاؤں میں محبت کرنے والوں نے جانیں دی ہیں. انہی کے کنارے کالی و درگاہ کے ماننے والوں کے بڑے بڑے میلے لگتے ہیں. انہی کو پَوِتر مان کر لوگ (ہندو دھرم) انہیں پوجتے ہیں. سیاحت میں بھی ان کا بنیادی کردار ہے. بلکہ پاکستان کی ہر بڑی اور خوبصورت وادی کے ساتھ کوئی نہ کوئی دریا منسلک ہے.
انہی سے تجارت، انہی سے خوبصورتی، انہی سے پوِترتا، انہی سے محبت اور سب سے بڑھ کر انہی سے
#زندگی. کیونکہ اگر دریا نہ ہوں تو لوگ قحط سے بھوکے مر جائیں.
لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ یہ دریا کیسے ہم تک پہنچتے ہیں؟؟؟
ان کے کنارے پر کیا کیا واقع ہے؟؟
ان کے مُنبع کہاں ہیں اور یہ کہاں اختتام پزیر ہوتے ہیں؟؟
ان کے سینوں پر کب کہاں اور کتنے بند باندھ کر زمین کو سیراب کیا گیا ہے؟؟؟کہاں اور کب ان پر سے ریلوے لائنیں اور سڑکیں گزاری گئی ہیں؟؟؟
سوچیں اگر کبھی ان دریاؤں کو زبان مل جائے اور یہ اپنی کہانی سنانے لگ جائیں تو..... تو یہ کہ ہم سب رات بھرجاگ کر ان کی کہانیاں سنا کریں. اتنی زرخیز داستانوں کے امانت دار ہیں یہ دریا.
چلیں ہم ایک چھوٹی سی کوشش کر کے دیکھتے ہیں. میں آپ کو پاکستان کے دریاؤں کی کہانی ان کی زبانی سناؤں گا. ہم شروع سے آخر تک ان کے ساتھ ساتھ سفر کریں گے اور ان کے کنارے واقع شہروں کا تقابلی جائزہ لیں گے.
تو چلیں شروع کرتے ہیںک کشمیر کے فرزند اور منگلا کی شان جہلم سے.
سری نگر کے 48 میل جنوب میں، تحصیل ویری ناگ (ضلع اننت ناگ/ اسلام آباد) ہے ،جہاں ” کوہِ پیر پنجال” کے خوبصورت اورصنوبر کے درختوں سے ڈھکے پہاڑ ”بانہال” کے دامن میں، 50 فٹ گہرا اور 100 فٹ پر محیط ایک چشمہ ”ویری ناگ” ہے ۔ یہی چشمہ آگے جا کہ کشمیر اور پاکستان کے مشہور دریا ”دریائے جہلم” کو جنم دیتا ہے جو صوبہ پنجاب کا دوسرا جبکہ دریائےسندھ کا سب سے بڑا معاون دریا ہے ۔ ”فرزندِ کشمیر” دریائے جہلم ، جسے ویتھ، وتستا، ہائیڈراپسِس، اور نہ جانے کن کن ناموں سے پکارا جاتا ہے ہندوستان اور پاکستان سمیت وادئ کشمیر کا بھی ایک مرکزی دریا ہے جو نہ صرف ان علاقوں کی زراعت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے بلکہ سامان کی نقل و حرکت کا بھی اہم ذریعہ ہے۔
ویری ناگ نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ویری اس علاقے کا پرانا نام تھا اور ”ناگ” مقامی زبان میں چشمے کو کہتے ہیں جو اس شہر کی وجہ شہرت ہے۔ شروع میں یہ ایک بے ڈھنگا سا چشمہ تھا جس کے کناروں سے پانی اچھل اچھل کہ بہتا رہتا تھا۔ شہنشاہ جہانگیر کی نظر اس پر پڑی تو اُس نےیہاں ایک تالاب اور اسکے اطراف میں ایک خوبصورت باغ بنوایا۔ جہانگیر کی وصیت کے مطابق اسے ویری ناگ کے شاہی باغ میں دفنایا جانا تھا لیکن اسکی بیوی نورجہاں نے اس وصیت پر عمل نہ کیا۔ چشمے کا پانی ایک تالاب میں اکٹھا ہو کر وہاں سے ایک نہر کے ذریعے ”دریائے بیہٹ” میں پہنچایا جاتا ہے۔اس چشمے کی ایک خاص بات اور بھی ہے، وہ یہ کہ مقامی لوگوں کے مطابق سینکڑوں سالوں سےاب تک یہ چشمہ خشک نہیں ہوا۔ویری ناگ سے دریائے جہلم اپنا سفر شمال کی جانب شروع کرتا ہے۔